پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے لیے مغرب ذمہ دار؟
DW.com, 18 September, 2022
پاکستان کا ایک بڑا حصہ جون سے لے کر اب تک ریکارڈ سیلابوں کی زد میں ہے، جن سے 33 ملین افراد متاثر اور تقریباﹰ 1500 ہلاک ہو چکے ہیں۔ جون سے اگست تک، تین ماہ کے دوران گزشتہ 30 سالوں میں ہونے والی اوسط بارش سے تقریباﹰ تین گنا زیادہ بارشیں ہوئیں۔ مئی میں گرمی کی لہر کے بعد ریکارڈ مون سون سیزن اور پگھلتے گلیشیئروں کی وجہ سے آنے والے تباہ کن سیلابوں کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق امور کی وزیر شیری رحمان نے مغرب کو اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ تاہم مغربی ممالک پر الزام لگانے کے دعووں میں کتنی حقیقت ہے اس کی تصدیق کے لیے ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک نے تین ذیلی موضوعات پر نظر ڈالی۔
دعویٰ: موسمیاتی تبدیلیاں سیلاب کی ذمہ دار ہیں۔
ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: سچ
انٹرنیٹ پر ایسے بیانات کی بھرمار ہے کہ پاکستان موسمیاتی تباہی کا سامنا کر رہا ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں ہی یہ دعوٰی بھی کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو درپیش اس صورتحال میں مغرب کا عمل دخل ہے ۔ ڈی ڈبلیو نے اس بارے میں تحقیق کی کہ کیا پاکستان واقعی ایک موسمیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔
اس کا جواب ‘ہاں‘ میں ہے لیکن اس کی کچھ حدود ہیں۔ ورلڈ ویدر انٹریبیوشن (ڈبلیو ڈبلیو اے) کے ایک مطالعے سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ سیلاب مون سون کی بارش کا براہ راست نتیجہ تھا جو گزشتہ برسوں میں شدت اختیار کر گیا ہے۔ ریکارڈ توڑ بارش اور موسم گرما میں شدید گرمی کی لہر نے گلیشیئروں کو بھی پگھلا دیا، جن کا پانی دریائے سندھ میں داخل ہوتا ہے اور جس سے سیلاب میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو اے کی رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ڈاکٹر فریڈریک اوٹو نے مطالعے کے نتائج کے بارے میں بتایا، ”دنیا کے اس حصے میں(جہاں پاکستان واقع ہے) آب و ہوا بہت متغیر ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہاں کچھ سال برسات والے ہوتے ہیں اور دیگر بہت زیادہ خشک ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس اس طرح کے اعداد و شمار اور معلومات دستياب نہيں، جن سے يہ پتا چايا جا سکے کہ سيلاب اور سنگين موسمی حالات کب اور کيسے آ سکتے ہيں۔‘‘
اوٹو کا کہنا ہے کہ یہ بتانا بھی ناممکن ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بغیر اس نوعیت کے سیلاب آنے کا امکان کتنا کم ہوتا۔ تاہم محققین کو یہ معلوم ہوا ہے کہ مجموعی طور پر اتنی شدت والے سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کے بغیر آنے کا امکان کم ہوتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو اے کی تحقیقاتی رپورٹ کے ایک شریک مصنف اور اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری ادارے مرکز برائے ماحولیاتی تبدیلی اور پائیدار ترقی کے محقق فہد سعید کا کہنا ہے، ”اس سال کے اوائل میں گرمی کی لہر کی شدت ميں اضافے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نشانات اور اب سیلاب، پاکستان کی اس طرح کی سنگين موسمیاتی حالات کے خلاف کمزوری کے ثبوت فراہم کرتے ہيں۔‘
دعویٰ:مغرب موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار ہے
ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: گمراہ کن
موسماتی تبدیلیوں سے متعلق امور کی وزیر شیری رحمان کا کہنا ہےکہ مغرب پاکستان میں سیلاب کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”میں چاہوں گی کہ فوسل ایندھن کا استعمال کرنے کی وجہ سے امیر ہونے والی مغربی کمیونٹیز کی طرف سے ہم پر دھونس نہ جمائی جائے۔‘‘ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ٹویٹر صارفین کے اسی طرح کے دعووں نے دنیا کے شمال سے لے کر جنوب تک کے زمے واجب الادا معاوضوں پر بحث چھیڑ دی ہے۔ بہت سے بیانات میں آب و ہوا کی ہنگامی صورتحال کے ليے ‘ترقی یافتہ ممالک‘ اور ‘امیر مغربی ممالک‘ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ اس بیان بازی کے مطابق مغربی یا امیر ممالک میں کاربن کا اخراج زیادہ ہوتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں کاربن کا اخراج کم ہے۔
رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ کاربن آلودگی پھیلانے والوں میں امریکہ، چین، جرمنی، جاپان، روس اور دنیا کے کئی جنوبی ممالک جیسے بھارت، ایران اور سعودی عرب نماياں ہیں۔ اس ليے غیر مغربی اور ترقی پذیر ممالک بھی موسمیاتی تبدیلیوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گرین ہاؤس گیسوں کا اضافی اخراج کرنے والے ممالک مجموعی طور پر ماحولیاتی بحران کے ذمہ دار ہیں۔
اقوام متحدہ کی 2021 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق آب و ہوا کے خطرات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل پاکستان کا کاربن فٹ پرنٹ 0.9 فیصد ہے۔ جرمنی میں موسمیاتی تحقیقات کے ادارے پوٹس ڈام انسٹیٹیوٹ میں آب و ہوا کی طبیعیات پر تحقیق کرنے والی انجا کاٹزن برجر کے مطابق، ” عالمی آب و ہوا کا سارا نظام ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور دنیا بھر میں ہونے والا کاربن کا اخراج ُاس ماحول میں داخل ہو رہا ہے جہاں دنیا بھر کا اخراج گھل مل کر تقسیم ہوتا ہے۔ کاربن کا اخراج ان علاقوں کو بھی متاثر کرتا ہے جہاں سے یہ خارج نہیں بھی ہوتا۔‘‘
دعویٰ: پاکستان کے ناقص انتظامات ماحولیاتی بحرانوں میں اضافے کی وجہ؟
ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: سچ
مغرب پر الزام لگانے کے دعووں کےساتھ ساتھ کچھ ٹویٹر صارفین نے پاکستان کے ناقص ڈیزاسٹر مینجمنٹ نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ فہد سعید جیسے ماہرین کا خیال ہے کہ شدید موسم کی ابتدائی علامات اس سال کے اوائل میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔”مئی اور اپریل میں گرمی کی لہر موسم میں شدت کی پہلی انتباہی علامت تھی۔ ‘‘
2021 ءکی بین الاقوامی حکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) کی رپورٹ سعید کے مشاہدہ سے مطابقت رکھتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ امر کافی حد تک یقینی ہے کہ پاکستان ان علاقوں میں سے ایک ہے، جنہیں گرم درجہ حرارت اور شدید بارشوں کا سامنا ہے۔
انتباہ کے باوجود حکومت اب بھی موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے ليے بڑی حد تک تیار نہیں ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب ملک کو کسی بڑے سیلاب سے نمٹنا پڑا۔ 2010 ء میں بھی سیلابوں نے پاکستان میں تباہی مچا دی تھی جس سے ملک کا پانچواں حصہ اور دو کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے۔ اس کے باوجود عام طور پر شدید بارش کو ہی اُس بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا۔ اُس وقت بھی ماحولیاتی مسائل کے ماہرین نے قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاریوں کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ سیلاب کے پانی کے قریب نہ آنے کے ليے لوگوں کو آگاہ کرنے والے بہتر وارننگ سسٹم کی موجودگی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا تھا۔ ماہرین نے ملک بھر میں پانی کی نکاسی کا نظام قائم کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
مغرب کی ذمہ داری سے متعلق ٹھوس ثبوت کی عدم دستیابی
پاکستان میں وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی کے لیے صرف کسی ایک ادارے یا ملک کوجوابدہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ انسانوں کی وجہ سے پیدا ہونے والا ماحولیاتی بحران ایک مشترکہ بوجھ اور ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مغرب کی ذمہ داری سے متعلق شیری رحمان کے جیسے دعووں نے آب و ہوا کی تلافی کے مطالبات پر توجہ دلائی ہے۔ تاہم یہ تعین کرنا کہ پاکستان معاوضے کا حقدار ہے یا نہیں، ایک اور بحث ہے کیونکہ اس بارے میں مغرب کو ذمہ دار ٹھہرانے والے دعوے گمراہ کن ثابت ہوئے ہیں۔