پی اے ایف وار کالج کے مندوبین نے پانی، توانائی کے تحفظ کے منصوبوں پر بریفنگ دی۔
Source: Dawn, Date: November 29th, 2022
لاہور: کراچی میں پاکستان ایئر فورس ایئر وار کالج کے وفد نے پیر کو واپڈا ہاؤس کا دورہ کیا اور اسے پانی اور توانائی کے تحفظ کے لیے درپیش چیلنجز اور منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
وفد کی سربراہی ایئر وائس مارشل حسین احمد صدیقی کر رہے تھے اور اس میں بحرین، بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، عراق، اردن، ملائیشیا، نائیجیریا، سری لنکا، جنوبی افریقہ، سعودی عرب اور زمبابوے کے پاکستانی اور اتحادی افسران شامل تھے۔
وفد کو پاکستان میں پانی اور پن بجلی کے شعبوں کے بارے میں بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔
واپڈا کے چیئرمین ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی نے کہا کہ پاکستان میں پانی کی صورتحال کو مزید ڈیموں کی تعمیر، پانی کو محفوظ کرنے، آبپاشی کی جدید تکنیک اپنانے اور پانی کے بخارات کے نقصانات کو کم کرنے سے ہی بہتر کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زراعت پر مبنی معیشت کی ترقی کے ذریعے معاشی بحالی ممکن ہے اور دیامر بھاشا ڈیم کے بعد ایک اور میگا آبی ذخائر زمینی سطح پر لا سکتے ہیں جس کے ذریعے ہم سالانہ 10 بلین ڈالر کے برابر معاشی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
وفد کو بتایا گیا کہ ملک میں پانی کی فی کس دستیابی 1951 میں 5,650 کیوبک میٹر سے کم ہوکر 908 کیوبک میٹر سالانہ کی خطرناک سطح پر آگئی ہے جس نے ہمیں پانی کی کمی والے ملک کی منزل تک پہنچا دیا ہے۔ پاکستان اپنے سالانہ دریاؤں کے بہاؤ کا صرف 10 فیصد ذخیرہ کر سکتا ہے، جبکہ دنیا کی اوسط 40 فیصد ہے۔ بھارت کے پاس 170 دن، مصر کے پاس 700 دن اور امریکہ کے پاس 900 دن کے مقابلے میں پاکستان کے پاس صرف 30 دن پانی کی گنجائش ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کو 30 دن سے بڑھا کر 120 دن کرنا ہوگا۔ اسی طرح کم لاگت والی ہائیڈل بجلی جو اس وقت 9,406 میگاواٹ ہے، کو بھی قومی گرڈ میں موجودہ 28 فیصد سے کم از کم 50 فیصد کرنے کی ضرورت ہے۔
وفد کو پانی اور پن بجلی کے شعبوں میں امکانات اور منصوبوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔ وفد کو معلوم ہوا کہ واپڈا پاکستان کے پانی، خوراک اور توانائی کے تحفظ کے لیے 2.5 ٹریلین روپے کے پانی اور پن بجلی کے شعبوں میں ترقیاتی منصوبوں کا اب تک کا سب سے بڑا پورٹ فولیو چلا رہا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم، کرم تنگی ڈیم، نئی گج ڈیم، داسو اور تربیلا پانچویں توسیعی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے چند نام ہیں۔
زیر تعمیر منصوبے 2023 سے 2029 تک مرحلہ وار مکمل کیے جائیں گے۔ ان منصوبوں کی تکمیل پر ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش 9.7 ملین ایکڑ فٹ بڑھ جائے گی جو 3.5 ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ ہائیڈل پاور کی پیداواری صلاحیت کو بھی دوگنا کیا جائے گا۔