google-site-verification=7XNTL8ogT7EzQbB74Pm4TqcFkDu-VGaPdhaRHXOEgjY
پاکستانپانی کا بحرانتازہ ترینتجزیے اور تبصرےتحقیقسیلابصدائے آبموسمیاتی تبدیلیاں

ٹھیکیدار 35 لاکھ میں ڈیم بنائے گا تو یہ ٹوٹے گا ہی‘، بلوچستان میں 169 ڈیمز کیسے ٹوٹے؟

Source: BBC Urdu, Date: 03 Nov, 2022

اس وقت رات کے نو یا دس بج رہے تھے۔ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا اور اس اندھیرے میں لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔ پانی کے تیز ریلے میں ایک ٹرالی پھنسی تھی جس میں ڈرائیور سمیت 13 افراد سوار تھے۔

پانی کا ریلا اتنا تیز تھا کہ کنارے پر کھڑے افراد کے لیے آگے بڑھ کر ٹرالی پر پھنسے لوگوں کی مدد کرنا ناممکن تھا۔ وہ لوگ بس ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور کسی معجزے کی دعا مانگ رہے تھے۔

دوسری طرف ٹرالی پر پھنسے لوگ اپنی چیخ وپکار میں کنارے پر کھڑے ساتھیوں کی آوازیں تو سُن سکتے تھے مگر ان کی بات سمجھ سے باہر تھی۔ پانی کا شور تھا اور آواز سامنے بنی پہاڑی سے گونج کر واپس پلٹ رہی تھی۔

اتنے میں پانی اپنی پوری طاقت سے ٹرالی کو بہا کر لے گیا اور اس پر سوار درجن بھر لوگ تنکوں کی مانند اس کے ساتھ ہی بہے گئے۔

یہ قلعہ عبداللہ کا علاقہ تھا جہاں ٹرالی ڈوبنے کی یہ ویڈیو اس وقت وائرل ہوئی جب بلوچستان میں حالیہ سیلاب کا دوسرا سپیل شروع ہوا اور ہر طرف تباہی پھیل گئی۔ ٹرالی پر سوار افراد میں سے تین ہلاک ہوئے جبکہ باقی کئی کلومیٹر تک بہنے کے باوجود معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے۔

قلعہ عبداللہ کے مرکزی بازار سے کچھ فاصلے پر مقامی طرز پر بنے کچے گھروں میں سے ایک میں دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی صف ماتم بچھی تھی۔ یہاں 16 سالہ معمر خان کی موت ہوئی تھی۔ معمر اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ اسی ٹرالی پر سوار تھے۔ وہ مقامی فٹبال ٹیم کے کھلاڑی تھے اور ان کی ہلاکت کے بعد ان کی فٹبال کھیلتے ہوئے کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر ہوتی رہیں۔

جب بلوچستان میں سیلاب کی دوسری لہر آئی تو یہاں ڈیمز ٹوٹنے کے چند واقعات رپورٹ ہوئے۔ انھی میں سے ایک معمر خان کے گھر کے قریب واقع تھا۔ ہم ان کے بڑے بھائی محمد عمر خان کے ہمراہ اس مقام پر پہنچے جہاں وہ ٹرالی پانی میں بہہ گئی۔

محمد عمر آبدیدہ تھے اور انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی کی موت کے لیے اکثر خود کو قصوروار سمجھتے ہیں۔ ’کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کاش میں ٹرالی نہ چلاتا۔ کبھی سوچتا ہوں کہ کاش یہ ڈیم نہ ٹوٹا ہوتا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ ڈیم ٹوٹ گیا ہے۔ میں سمجھا تھوڑا سا پانی ہے، میں ٹریکٹر گزار لوں گا۔‘

’مگر پانی بہت تیز تھا۔ ڈیم کے ساتھ جو کچرا آیا وہ سب ٹریکٹر کے ٹائر میں پھنس رہا تھا۔ میرا دوسرا بھائی ٹائر پر کھڑا تھا اور کچرا نکال رہا تھا۔ معمر کی آخری بات مجھے یاد ہے۔ اس نے آواز دے کر کہا کہ ’بھائی پیچھے ٹرالی میں آ جاؤ۔ مگر اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔‘

محمد عمر دیگر علاقہ مکینوں کی طرح اس تباہی کا ذمہ دار اس ڈیم کو ٹھہراتے ہیں جس کے ٹوٹنے سے پانی کا ریلا اتنا شدید ہو گیا کہ وہ راستے میں آنے والی ہر شے کو بہا لے گیا۔

یہیں ان کے انگوروں کے باغات تھے جو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ اور ان کا خاندان لاکھوں روپے کے قرض تلے دب چکا ہے۔

لیکن یہ واحد ڈیم ہے نہ ہی یہ واحد خاندان جو آج جانی اور مالی نقصان کا سامنا کر رہا ہے۔

ڈیمز کی تباہی اور بی بی سی کی تحقیقات

بلوچستان ملک میں حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ یہاں سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ لاکھوں ایکڑ اراضی اور ہزاروں باغات تباہ ہوئے ہیں۔ بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق ان نقصانات کی ایک بڑی وجہ وہ چھوٹے ڈیمز ہیں جو سیلاب کے دوران ٹوٹ گئے۔

صوبے کے 23 اضلاع میں بنے یہ ڈیمز مکمل یا جزوی طور پر ٹوٹے اور ان سے نکلنے والے پانی کے تیز ریلے راستے میں آنے والی ہر شے بہا کر لے گئے۔

بی بی سی کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق صوبے میں 169 ڈیمز ٹوٹے جن میں کم از کم 40 ڈیم ایسے ہیں جو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ دیگر ڈیمز میں مختلف نوعیت کے نقصانات ہوئے تاہم ان میں سے بیشتر مکمل طور پر غیر فعال ہو گئے ہیں۔ ان میں کچھ ڈیمز ایسے بھی ہیں جو ابھی زیرتعمیر تھے یا ان پر کام مختلف وجوہات کی بنا پر تعمیراتی کام رُکا ہوا تھا۔

دستاویزات کے مطابق ڈیمز ٹوٹنے کے سب سے زیادہ واقعات قلعہ عبداللہ میں ہوئے جہاں 38 ڈیمز تباہ ہوئے۔ کوئٹہ میں 15 چھوٹے ڈیمز ٹوٹے یا ان میں شگاف پڑے جبکہ ضلع خضدار میں یہ تعداد 11 ہے۔

دستاویزات کے مطابق حب، ڈیرہ بگٹی اور بیلا میں نو، نو ڈیمز، کچھی میں سات، چاغی نوشکی، ہرنائی، ژوب اور موسی خیل میں پانچ، پانچ ڈیمز ٹوٹے۔ اسی طرح ضلع خاران واشک اور مستونگ میں چار، چار، کیچ میں تین، کوہلو اور قلات میں دو، دو جبکہ سراب اور ڈکی ڈسٹرکٹ میں سے ہر ایک میں ایک، ایک ڈیم غیر فعال ہوا ہے۔

دستاویزات کے مطابق ان ڈیمز اور صوبے میں کینال سسٹم کی تعمیر و مرمت کے لیے اندازہ لگایا گیا ہے کہ صوبے کو 22 ارب روپے درکار ہوں گے اور ان ڈیمز کی دوبارہ تعمیر یا مرمت کا کام مختلف مراحل میں مسلسل جاری رہا تب بھی اس پر تین سے چار سال کی مدت لگ جائے گی۔ یہاں صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جس کی وجہ خشک سالی ہے۔

بلوچستان میں ڈیمز ٹوٹنے سے پھیلنے والی تباہی جاننے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ پاکستان میں ڈیمز کی اقسام کون سی ہیں اور یہ ڈیمز کیسے ’فیل‘ یا غیر فعال ہو کر ٹوٹ سکتے ہیں۔

ڈیم کیا ہے اور یہ کیسے ٹوٹتا ہے؟

ماہرین کے مطابق پاکستان میں سائز اور گنجائش کے لحاظ سے ڈیمز کو بنیادی طور پر تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں کثیر الجہتی بڑے یا میگا ڈیمز جیسا کہ تربیلا اور منگلا ڈیم ہیں، اس کے بعد میڈیم اور چھوٹے سائز کے ڈیمز ہیں جو کہ عام طور پر صوبوں کی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کا حصہ ہوتے ہیں اور ان سے حاصل فوائد بھی مقامی سطح پر نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد منی ڈیمز، چیک ڈیمز اور تالاب ہیں جو کہ عام طور پر فلاحی سکیموں کا حصہ ہوتے ہیں۔

ڈیم کی منصوبہ بندی کے وقت اس کے سائز کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ ڈیم کا بنیادی مقصد پانی ذخیرہ کرنا ہے جو آبپاشی اور پینے کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کے علاوہ یہ تفریحی مقاصد، گراونڈ واٹر ری چارج اور فلڈ مینجمنٹ کے لیے بھی بنائے جاتے ہیں۔

اس کے بعد اگر اس کی سٹوریج سے زیادہ پانی آ جائے تو اس پانی کو نکالنے کے لیے ارینجمنٹ کیا جاتا ہے جسے سپیل وے کہا جاتاہے، یعنی سرپلس پانی کے لیے گزر گاہ۔

ڈیمز کی ان تمام اقسام کے لیے بین الاقوامی کوڈز ہیں جو تعین کرتے ہیں کہ کس سائز کے ڈیم کو کس معیار کے حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے اور یہ کہ اس میں کس قسم کے رسک فیکٹرز (خطرات) ہوں گے جن کا خیال رکھنا ضروری ہو گا۔

ڈیم کیوں ’فیل‘ ہوتا ہے یا ٹوٹ سکتا ہے؟

بی بی سی نے اس سے متعلق ڈیمز سے متعلق کام کرنے والے کنسلٹنٹ اور انجینیئر ظفر اقبال وٹو سے بات کی اور ان سے یہ پوچھا کہ ایک ڈیم کیسے ناکام ہو سکتا ہے، ان کے مطابق اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں:

  • پہلی وجہ ڈیم کی تعمیر کے دوران ناقص منصوبہ بندی اور کنسٹرکشن ہے۔ اگر ایک ڈیم کا ڈیزائن ٹھیک نہیں یا اس میں مٹیریل درست معیار کا استعمال نہیں ہوا یا تعمیر کے دوران کوالٹی کنٹرول کا خیال نہیں رکھا گیا، یا اگر ڈیم درست طریقے سے بن تو گیا مگر اس کے آپریشن اور مرمت کا خیال نہیں رکھا گیا، اس پر ریگولر چیک نہیں رکھا گیا۔
  • دوسری بڑی وجہ گنجائش سے زیادہ پانی آنا ہے۔ ایسی صورت میں اس فالتو پانی کو نکالنے کے لیے سپل وے سٹرکچر بنے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سپل ویز سٹینڈرڈ ڈیزائن کے مطابق نہ ہوں تو یہ ڈیم تباہ ہو سکتا ہے۔ ان سپل ویز کا سائز اور ان کی تعداد کا انحصار ڈیم کے سائز اور وہاں پانی کی گنجائش کے علاوہ پانی کی آمد پر ہے، جس کا ذریعہ بارش یا کچھ اور ہو سکتا ہے۔ اس طرح اگر سپل ویز انڈر ڈیزائن ہیں، یا جس علاقے میں ڈیم بنے وہاں بارشوں یا پانی کی آمد یا اس ڈیم کی تعمیر کے لیے علاقہ موزوں ہونے سے متعلق ڈیٹا ہی دستیاب نہیں تھا، مگر اس کے باوجود وہاں ڈیم بنا دیا گیا تو یہ بھی ڈیم تباہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔

بلوچستان میں سب سے زیادہ ڈیمز مگر نگراں ادارہ کوئی نہیں

پاکستان میں سب سے زیادہ ڈیمز بلوچستان میں ہیں۔ پاکستان فلڈ کمیشن کی 2020 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک میں کل 1007 ڈیمز ہیں جن میں سے 710 بلوچستان میں ہیں، ان میں بھی 65 ایسے ہیں جن پر ابھی کام شروع نہیں ہوا جبکہ ڈیڑھ سو کے قریب بڑے ڈیمز ہیں۔ سندھ میں 127، پنجاب 67 جبکہ خیبر پختونخوا میں 65 چھوٹے بڑے ڈیمز ہیں۔

بلوچستان میں اتنی بڑی تعداد میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا مقصد پانی ذخیرہ کرنا ہے۔ سالہا سال خشک سالی کا شکار رہنے والے صوبے میں پانی کی ضروریات بڑی حد تک انھی چھوٹے ڈیموں کی مدد سے پوری کی جاتی ہیں۔ ان میں عام طور پر بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے جس کا بڑا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں۔

تاہم بی بی سی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صوبے کی اہم ترین ضرورت پوری کرنے کے لیے بنائے جانے والے ان ڈیموں میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور ان کی تعمیر میں سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال عام ہے۔

صوبے میں ڈیمز کی تجویز اور پی سی ون (ابتدائی پلاننگ) کے وقت  بارشوں سے متعلق پیشنگوئی کرنے کے لیے ریسرچ کی جاتی ہے نہ ہی ایسا کوئی نظام موجود ہے جبکہ دیگر صوبوں کے برعکس اتنی بڑی تعداد میں ڈیمز ہونے کے باوجود یہاں ان کے لیے کوئی علیحدہ ادارہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

بلوچستان میں ڈیمز کیوں ٹوٹے؟

اس سوال کا جواب جاننے کے بعد ہم بلوچستان کے محکمہ آبپاشی پہنچے۔

ڈیمز کی نگرانی کے لیے کوئی علیحدہ ادارہ موجود نہیں اور یہ کام بھی صوبے کا محکمہ آبپاشی سرانجام دے رہا ہے جس کے کندھوں پر صوبے میں پانی سے جڑی ہر ذمہ داری ہے، چاہے وہ سیلاب ہو، ندی نالے ہوں، کینال سسٹم ہو یا پھر چھوٹے بڑے ڈیمز۔

یہاں ہماری ملاقات سیکرٹری اریگیشن ڈپارٹمنٹ محمد عبدالفتح سے ہوئی۔ ہم نے ان سے اس تباہی کے بارے میں پوچھا جو حالیہ سیلاب کے دوران ہوئی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ اتنی بڑی تباہی نہیں جتنی سمجھی جا رہی ہے۔

ان کے مطابق اس سال بارشیں کئی گنا زیادہ ہوئیں جن سے چھوٹے ڈیمز تباہ ہوئے۔ تاہم ’یہ تعداد ایک یا دو فیصد ہے، ہم نے بہت سے ڈیمز بچائے اور بہت سے علاقے ڈوبنے سے بھی بچائے ہیں۔‘

اس سوال پر کہ کیا ڈیمز کی تعمیر کے دوران ناقص مٹیریل استعمال ہوا، دوران تعمیر انسپیکشن نہیں کی گئی اور ڈیزائن کے مطابق تعمیر نہیں ہوئی، سیکریٹری اریگیشن نے کہا کہ ’اس امکان کو، انسانی غلطی کو، نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ حکومت اس ضمن میں تحقیقات کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان حکومت نے گذشتہ دنوں اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں جس سے متعلق آنے والی سطروں میں بتایا جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button