سیلاب کے پانی کی سطح کم ہو رہی ہے مگر متاثرین کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں
UNICEF.org, 21 Oct, 2022
جعفر آباد، پاکستان: وہ منظر دو ر سے بہت بے ضرر لگتا تھا۔ ہم پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کی ایک اونچی سٹرک سے گزر رہے تھے جب ہم نے وہ منظر دیکھا۔ جہاں تک انسانی آنکھ دیکھ سکتی تھی، ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ بلوچستان جیسے خشک اور صحرائی علاقے میں ایک سمندر کا وجود غیرمعمولی بات ہے۔ میں نے سوچا اس سمندر کے نیچے کتنے لوگوں کے گھروں کے آثار موجود ہونگے ، جو اس سال مون سون کی تباہ کن بارشوں اور سیلاب میں بہہ گئے ۔ جو بچ گئے ہیں ان کی زندگیوں پر بھی اَن دیکھے خطرات کے سائے منڈلاتے ہیں۔ زہریلے سانپ اور آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریاں سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو درپیش نئے خطرات ہیں ۔
نذیرہ کا خاندان بھی انہی میں سے ایک ہے۔
”رات کا وقت تھا جب ہم نے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان سنا۔ کہا گیاکہ پانی کا بہاؤ بڑھ گیا اور اس کا رُخ ہماری طرف ہے،‘‘ نذیرہ کے شوہرحسن خان نے بتایا۔’’ہم بس اپنی جانیں بچاکر بھاگے۔ اپنے ساتھ اور کچھ بھی نہیں لے جا سکے۔‘‘یہ پاکستان میں سیلاب سے بے گھر ہونے والے 70 لاکھ سے زائد افراد میں سے بہت سے لوگوں کی کہانی ہے، ایک المناک کہانی جو میں نے ان خاندانوں سے ملاقات کے دوران بار بار سنی ہے۔
نذیرہ اور حسن خان اس وقت ایک عارضی کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں جو مقامی حکام نے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے قائم کیا ہے۔ کیمپ تک جانے والی تنگ سڑک کے ساتھ بھی متاثرہ خاندانوں نے عارضی پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں، یہ جگہ زمین کے ان چند ٹکڑوں میں سے ایک ہے جو خشک رہ گئے ہیں، مگر سڑک کنارے آباد اس کیمپ میں بہت سے لوگ اور چھوٹے بچے تیز رفتار گاڑیوں اور ٹرکوں کی گزرگاہ سے صرف چند فٹ کی دوری پر زمین پر سو نے پر مجبور ہیں۔
یہاں ارد گرد اور جہاں تک نظر جاتی ہے، پانی میں ڈوبی ہوئی عمارتوں کی چھتیں نظر آتی ہیں۔ اتنے زیادہ پانی کو مکمل طو رپر خشک ہونے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ پانی ہر طرف کھڑا ہے مگر یہ پینے کے قابل نہیں ہے۔ پیاس کے ہاتھوں مجبو ر بچے اس آلودہ پانی کو پی لیتے ہیں جس سے انہیں سنگین بیماریوں کے ساتھ ساتھ موت کے خطرے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہم کیمپ پہنچے تو دیکھا کہ دو چھوٹے لڑکے ایک بھینس کے پیچھے سیلابی پانی میں اُترے ہوئے ہیں۔ آس پاس لوگ انہیں چیخ چیخ کر آوازیں دے رہے ہیں۔ سب کی نظر ایک لمبی سیاہ شے پر تھی جو تیزی سے تیرتی ہوئی ان لڑکوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ ایک سانپ تھا ۔ خوش قسمتی سے سانپ کے پہنچنے سے پہلے ہی لڑکے بحفاظت پانی سے باہر نکل آئے۔
کیمپ میں موجود لوگوں نے بتایا کہ انہیں سانپ اور آوارہ کتوں کے کاٹنے کے خطرے کا سامنا ہے ۔اس کے علاوہ کچھ لوگوں نے بتایا کہ انہیں بچھوؤں اور ڈینگی کی پریشانی تھی، جو مچھروں کے کاٹنے سے پھیلنے والی ایک وائرل بیماری ہے ۔ ان کھڑے پانیوں میں مچھر پھلتے پھولتے ہیں اور رات ڈھلنے سے پہلے ہی باہر نکل کران بے گھر خاندانوں کے ارد گرد منڈلاتے ہیں ، جن کے پاس اپنی حفاظت کے لیے پنکھے یا مچھر دانی تک موجود نہیں ہے۔
فی الحال، نذیرہ، ان کے شوہر اور تین بچوں نے ایک خیمے کو اپنا گھربنا رکھا ہے۔ 8 سالہ ناصر احمد خیمے میں موجود واحد فرنیچر ، یعنی ایک لکڑی اور رسی کی چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا 18 ماہ کا بھائی، شعیب، ناقابل برداشت نمی سے بے سدھ ہوکر اس کے پہلو میں سو رہا تھا۔
’’میرا گھر اس سے اچھا تھا،‘‘ ناصر احمد نے ہمیں بتایا۔ ’’یہاں میرےکرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کبھی کبھی میں کیمپ میں مقیم اپنے دوستوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتا ہوں۔ باقی وقت، میں بوریت محسوس کرتا ہوں اور اداس رہتا ہوں۔. مجھے اپنے گھر کی یاد آتی ہے۔‘‘
حال ہی میں یونیسف اور حکومت بلوچستان کی جانب سے قائم کردہ موبائل ہیلتھ یونٹ پر ڈاکٹروں نے نذیرہ کے سب سے چھوٹے بچے، چھے ماہ کے نقیب اللہ میں غذائی قلت کی تشخیص کی تھی۔ انہوں نے اُسے ریڈی ٹو یوز تھراپیٹک فوڈ (آر یو ٹی ایف) دیا، جو 5 سال سے کم عمر بچوں میں وزن کی شدید کمی کے علاج اور ان کی زندگیاں بچانے کے لیے ہے۔ یونیسف اور اس کے شراکت دار اداروں نے بلوچستان میں درجنوں موبائل ہیلتھ یونٹس قائم کیے ہیں جو بچوں میں شدید مائع اسہال، سانس کے انفیکشن اور جلد ی بیماریوں کے علاج کے ساتھ ساتھ نقیب اللہ کو دیے جانے والے کھانے کے سپلیمنٹ جیسی زندگی بخش ادویات بھی فراہم کرتے ہیں۔
یہاں متعین یونیسف کے نیوٹریشن آفیسر، شیراز علی کا کہنا تھا کہ سیلاب سے پہلے بھی اس علاقے میں رہنے والے 50 فیصد سے زیادہ بچے مناسب نشوونما سے محروم تھے۔ شیراز علی دائمی غذائی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایک ایسی طبی حالت کا حوالہ دے رہے تھے جو بچوں کے دماغ اور جسم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بلوچستان میں جیسے جیسے سیلابی پانی کم ہو رہا ہے، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ کی صورت میں ایک اور تباہ کن لہر سامنے آ رہی ہے ۔ دوسری طرف لوگوں کو ضرورت کے مطابق پینے کے صاف پانی کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔شیرازعلی نے ہمیں بتایا کہ کمزور بچے شدید غذائی کمی ، اسہال اور ملیریا کا بھی شکار ہو رہے ہیں ، جبکہ ان میں سے بیشتر کی مائیں بھی غذائی قلت کا شکار ہیں۔
نذیرہ نے بتایا کہ کہ اس کا بیٹا نقیب اللہ اب پہلے سے بہتر ہے لیکن وہ اب بھی اس کی صحت کے بارے میں فکر مند رہتی ہے۔ اس نے دوسری ماؤں سے سنا ہے کہ ان کے بچے بھی پہلے صحت یاب ہوتے دکھائی دیے ، مگر دوبارہ بیمار پڑ گئے ۔ ان بے گھر بچوں کی صحت کی حفاظت اور ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے ایک ایسے بحران سے انہیں بچانے کے لیے جس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے ، ہمیں بہت سے وسائل کی ضرورت ہے۔
’’ہمیں بس رہنے کے لیے ایک گھر اور بچوں کے لیے خوراک اور دوا کی ضرورت ہے،‘‘ نذیرہ نے پراُمید لہجے میں کہا تھا۔