سندھ میں رواں سال غیر معمولی بارشیں ہوئیں اور حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ یہ معمول سے 700 فیصد زائد تھیں جس کے نتیجے میں صوبے کے 19 اضلاع متاثر ہوئے اور بارش کا تقریبا 100 ملین ایکڑ فٹ تک پانی جمع ہو گیا۔
اس سیلاب کی وجہ سے جہاں جانی اور مالی نقصان ہوا ہے وہیں صوبے کی 35 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمینوں پر موجود فصیلیں تباہ ہو گئیں ہیں۔
شمالی سندھ میں چاول کی فصل وافر مقدار میں ہوتی ہے لیکن شھدادکوٹ ایک طرف بارشوں سے متاثر ہوا تو دوسری طرف بلوچستان سے آنے والے سیلابی پانی نے صورتحال مزید بگاڑ دی۔
زربخت نے مجھے بتایا کہ ویسے تو بارش کئی روز جاری رہی لیکن ’جو بارش 10 روز مستقل ہوئی اس سے سب کچھ درہم برہم ہوگیا۔‘
’یہاں چاول کی فصل ہوتی ہے، میرا سال بھر کا علاج معالجہ، کھانا پینا اسی سے ہوتا ہے۔ اب یہ فصل گئی، جو میں نے سود پر کھاد اور بیج لیا وہ تو ضائع ہو چکا ہے لیکن وہ سود والے مجھے چھوڑیں گے تو نہیں۔ میں بیوہ عورت کہاں جاؤں، کیا کروں۔‘
زربخت نے ہمیں اپنا کچا مکان بھی دکھایا جو گر چکا تھا۔ ان کی تین بھیڑیں بھی ہلاک ہو چکی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’فی ایکڑ پر 60 ہزار روپے خرچہ آتا ہے۔‘
خرچہ نکال کر ان کو دو ڈھائی لاکھ روپے بچ جاتے ہیں جن سے وہ اپنا سال بھر کا خرچہ چلاتی ہیں۔ لیکن اس وقت ان کے پاس کچھ نہیں۔
سندھ میں جولائی سے اگست تک چاول کا بیج لگایا جاتا ہے جس کے لیے زمینوں کو پانی سے بھر دیا جاتا ہے۔ اگست میں جب شدید بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ فصل مکمل زیرآب آ گئی۔
سندھ کے محکمہ زراعت کے مطابق 25 لاکھ ایکڑ پر چاول کی کاشت کی گئی تھی جو 100 فیصد خراب ہوئی ہے۔
شھدادکوٹ میں 100 سے زائد رائس سیلرز یا چاول کی صفائی کے کارخانے ہیں۔ حالیہ بارشوں سے ان کارخانوں کا ڈھانچہ متاثر ہوا۔ چھتیں ٹپکنے سےگوداموں میں جو چاول موجود تھے وہ بھی خراب ہو گئے۔
انیل کمار چاول کی صفائی کے دو کارخانوں کے مالک ہیں۔ ہم جب وہاں پہنچے تو ان کے کارخانے کے میدان میں چاول پھیلے ہوئے تھے اور بوریاں کاٹ کاٹ کر انھیں نکالا جارہا تھا۔ ان کی شکل ایسی تھی جیسے پکانے سے پہلے چاول کو پانی میں بھگویا جاتا ہے۔
انیل کمار نے ہمیں دھان کے دانے دکھائے اور بتایا کہ کارخانے میں صفائی کے بعد اس کو چاول کی شکل دی جاتی ہے۔ ’بارش سے جو پانی آیا ہے اس نے یہ شکل اختیار کرلی ہے، اب یہ چاول مرغیوں کی فیڈ وغیرہ میں کام آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ کھانے کے قابل نہیں ہے۔‘
رائس سیلرز کے پاس نومبر سے چاول کی نئی فصل آنا شرو ع ہو جاتی ہے اور دسمبر اور جنوری اس کا عروج ہوتا ہے۔
انیل کمار کے مطابق 80 فیصد فصل خراب ہو چکی ہے جس کی وجہ سے صرف پانچ فیصد کارخانے ہی بمشکل چل سکیں گے۔ ایک کارخانے میں 20-25 مزدور کام کرتے ہیں جن کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔
سندھ میں حالیہ بارشوں سے کسانوں اور کاشت کاروں پر پڑنے والے اثرات جاننا ہی ہمارے حالیہ سفر کا مقصد تھا۔ جب سکھر بیراج سے سفر کرتے ہوئے ہم دریائے سندھ کے دائیں کنارے سے بائیں کنارے کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں دیکھا کہ دریائے سندھ مکمل طور پر بھرا ہوا تھا۔
جیسے ہی قومی شاہراہ پر خیرپور سے گذرے تو کھجور کے درخت زیر آب نظر آئے، رواں سال سب سے پہلے کھجور متاثر ہوئی تھی جیسے ہی بارش ہوئی تو اس کا پھل کھٹا ہو گیا۔
کاشت کاروں نے اس کو چھوہارا بنانے کو ترجیح دی۔ یہ چھوہارا سوکھنے کے لیے میدانوں اور مارکیٹ میں موجود تھا جب مزید بارش نے اسے بھی خراب کر دیا۔
بارشوں سے ٹوٹی ہوئی سڑکوں سے گذرتے اور راستے میں پانی سے بھری ہوئی فصلوں کو دیکھتے ہوئے ہم وسطی سندھ کے ضلع سانگھڑ پہنچے۔
پاکستان میں 13 لاکھ کسان 6 ملین ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت کرتے ہیں۔ کپاس کی چنائی خواتین کرتی ہیں جو ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے لیکن ان کی زمینیں اس وقت زیر آب ہیں۔
صادق علی اور ان کے پانچ بھائیوں کے پاس 36 ایکڑ زمین ہے جس پر کپاس کی فصل لگی ہوئی تھی۔ جب ہم ان کی فصل دیکھنے پہنچے تو اس وقت بھی پانی ہمارے گھٹنوں سے اوپر تھا۔
صادق علی کے مطابق آٹھ دن مسلسل بارش ہوئی اور ساری فصل ڈوب گئی۔ ایک ایکڑ پر ایک لاکھ کے قریب خرچہ آتا ہے اور وہ مقامی سیٹھوں سے قرضے پر کھاد اور بیج لیتے ہیں۔ اب یہ سود بھی ان پر چڑھ چکا ہے۔
صادق علی دیگر کسانوں کے ہمراہ پانی میں موجود کپاس کے پودوں سے کپاس نکال رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جو بچ گئی ہے اس کو نکال رہے ہیں تاکہ کچھ تو خرچہ نکل سکے۔‘
صادق علی کے مطابق اس وقت وہ کپاس کی آدھی فصل لے چکے تھے لیکن اس بار وہ کچھ نہیں لے سکے ہیں۔ ان دنوں بھی زمین کو قابل کاشت بنانے میں ایک سال کا عرصہ لگ گیا تھا اس وقت بھی اگر پانی نہیں نکلا تو وہ اگلی فصل نہیں لگا سکیں گے۔
سانگھڑ میں 100 کے قریب کاٹن جننگ فیکٹریاں ہیں جن میں سے کئی تو کاٹن کے بیج بنولہ سے خوردنی تیل بھی نکالتی ہیں۔ بنولہ آئل پاکستان میں زیر استعمال خوردنی تیل کا 75 فیصد ہے۔
نوابشاہ سانگھڑ روڈ پر ایک رنگ بند باندھا گیا تھا دوسری طرف پانی ہی پانی تھا۔ یہاں نیو جھولے لال کے نام سے کاٹن فیکٹری تھی جس میں سے کشتیوں کے ذریعے کپاس لائی جارہی تھی جبکہ فیکٹری پانی کے گھیرے میں تھی۔
فیکٹری کے مالک راموں مل نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے 2009 میں یہ فیکٹری لگائی تھی، جو 2011 کے سیلاب میں ڈوب گئی اور انہیں 10 کروڑ کا نقصان پہنچا۔
انھوں نے بمشکل یہ قرضہ اتارا ہی تھا کہ ایک اور سیلاب آ گیا۔ فیکٹری میں ان کے پاس 15 ہزار من کپاس، 10 ہزار بنولہ اور مشینری موجود تھی جو ساری تباہ ہو گئی اور انھیں 15 کروڑ کا نقصان پہنچا۔
رائس سیلرز کی طرح یہ کاٹن فیکریاں بھی مقامی سطح پر روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اور ہر فیکٹری میں 20-25 مزدوری دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔
اشوک کمار کہتے ہیں کہ حکومت کو ریلیف دینا چاہیے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ریلیف کیا ہو سکتا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ کھاد اور بیج پر سبسڈی دی جائے اور اس سے پہلے پانی کی نکاسی کو یقینی بنایا جائے۔
محکمہ آبپاشی سندھ کا دعویٰ ہے کہ 15 اکتوبر تک پانی کی نکاسی مکمل ہو جائیگی اور اگلی فصل لگ سکے گی۔ لیکن اب تک ان زمینوں پر پانی ہی پانی ہے اور ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔