ڈیموں کی تعمیر آبی وسائل کا بہترین انتظام ، سیلاب کی تباہ کاریوں سے تحفظ
ڈیموں کی تعمیر آبی وسائل کا بہترین انتظام ، سیلاب کی تباہ کاریوں سے تحفظ
کراچی اور بلوچستان کی حالیہ سورتحال
محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال صرف جولائی کے ایک ماہ میں ہی پچھلے سال2021ء کے مون سون کے تین ماہ (جولائی تا ستمبر ) کی کل ملا کر بارشوں سے زیادہ بارش ہوچکی ہے۔محکمہ کی اگست کی موسمیاتی آوٹ لک کے مطابق اگست کے مہینے میں پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان کے ساحل مکران میں مزیذ تیز بارشیں ہوں گی جب کہ شمالی علاقوں میں گرمی کی وجہ سے برف کے پگھلنے سے مڈفلو کا خطرہ ہے۔
ادھر انڈیا نے طوفانی بارشوں کے بعد دریائے چناب اور راوی میں پانی چھوڑ دیا ہے۔ دریائے چناب میں طغیانی سے ضلع جھنگ کے کافی علاقے زیر آب آچکے ہیں۔
آج کل کے ترقی یافتہ دور میں ڈیم منصوبوں کا مقدمہ لڑنا ایسے ہی ہے جیسے اپنے آپ پر بنیاد پرست یا قدامت پسند کا لیبل لگوانا۔موجودہ پانی کی دنیا میں پائیداری (Sustainability) اور تحفظ ماحول کا نعرہ بلند کرنے والے ہی پیا من بھاتے ہیں۔تاہم پاکستان جیسا ملک تو Sustainability سے پہلے اپنی زرعی بقا (survival) کے مسئلے سے دوچار ہے۔ پیاسے کو بھی کھانے کے دو نوالوں کا تب خیال آتا ہے جب ایک گھونٹ پانی مل جائے اور چھت کا خیال کھانے کا بندوبست ہونے کے بعد آتا ہے تو ایسے میں ہم اُس شخص کو ماحول دوست گرین ہاؤس کے فوائد کیسے سمجھا پائیں گے۔
دنیا کا ہر ڈیم پراجیکٹ ضروری نہیں ہوتا اور نہ ہی غیر ضروری ہوتا ہے۔ اس کا مقام ، وقت اور حالات اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم نہ تو بھوک سے تنگ لوگوں کو ڈبل روٹی کھانے کا مشورہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی ہر جگہ میگا ڈیم پراجیکٹ تھوپ سکتے ہیں۔پاکستان میں تو ہر سال پانی کی کمی سے بھی معیشت لڑکھڑا جاتی ہے اور ساتھ ہی اسی سال زیادہ بارش سے سیلاب آنے سے اربوں ڈالر نقصان ہوجاتے ہیں۔ ملک میں جہاں پانی کی زیادہ ضرورت ہے وہاں بارشیں کم ہوتی ہیں۔ اور زیادہ بارش والے علاقوں سے ضرورت والے علاقوں تک پانی کی ترسیل بہت مشکل کام ہے۔
ہماری فصلوں کی ترتیب ایسی ہے کہ اُنھیں مون سون کے تین مہینوں کے علاوہ باقی نو مہینوں میں بھی اچھا خاصا پانی چاہیے۔
ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق کا حل ہمیشہ ریزرو ہوتا ہے۔
ہمارے مسائل کے حل بھی پانی کے ہر قسم کے چھوٹے یا بڑے ذخائر بنانا،بہتر واٹر مینجمنٹ، زراعت کو جدید خطوط پر اُستوار کرنا اور واٹر سسٹم میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔
سی پیک اور واٹر مینجمنٹ
گوادر چین کے ’’ون روڈ ون بیلٹ‘‘ جیسے جدید عالمی تجارتی راستے کا وہ صدر دروازہ ہے جس کے تالے کی کنجی گوادر سے چارسو کلومیٹر مشرق میں ہنگول نیشنل پارک کے قریب ہنگلاچ ماتا کے مندر میں پڑی ہوئی ہے۔ اس چابی سے وہ انقلابی واٹر وے کھلے گا جو ساحل مکران کی تمام بندرگاہوں اورماڑہ، پسنی ، گوادر اور جیونی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پینے کے صاف پانی کی قلت سے آزاد کرسکتا ہے۔
سی پیک کے منصوبہ سازوں کو پنجاب اور سندھ میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ بنانا تو یاد رہے لیکن سی پیک کی رُوح گوادر شہر کے باسیوں کے لیے پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی انسانی ضرورت کی فراہمی بھول گئی جس کے بغیر کوئی شہر زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ سی پیک منصوبہ ساز اتنی اہم جگہ کو نظرانداز کر گئے جس کا کھوج واپڈا کے انجینئرز نے پچاس سال قبل لگا لیا تھا۔
حب ڈیم واپڈا نے 80 کی دہائی میں کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے تعمیر کیا اور اس کے ڈیزائن اور تعمیر میں ملک کے اعلی دماغوں نے حصہ ڈالا تھا کیوں کہ اُس وقت واپڈا تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم ، دریائے سندھ پر بیراجز اور رابطہ نہروں کے بے شمار کام کرچکا تھا۔
حب ڈیم کو بھی ظاہر ہے کہ اُس وقت کے انٹرنیشنل سیفٹی اسٹینڈرڈ کے مطابق ہی ڈیزائن کیا گیا تھا اور اس کا اسپل وے اس کے کیچمنٹ (Catachment) سے آنے واکے پانی کے لحاظ سے ڈیزائن کیا گیا جو آج 35 سال بعد بھی صحیح کام کرہا ہے۔
اس طرح کے بڑے ڈیم کے مختلف حصوں پر تعمیر کے دوران ہی مختلف قسم کے آلات نصب کر دیے جاتے ہیں جو کہ ڈیم کی پوری زندگی کے دوران اس کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ، ڈیم کی بنیادوں سے پانی کا رساو ، کسی زلزلے کی صورت میں ڈیم میں بننے کریک یا دراڑوں کے حوالے سے مسلسل ریڈنگ لے رہے ہوتے ہیں۔
کراچی کے علاقے بنارس کے پاس واپڈا کا حب ڈیم کا پورا پراجیکٹ ڈائریکٹریٹ بنا ہوا ہے اور ڈیم کے اوپر بھی واپڈا کا عملہ ایک ایس ڈی او کی نگرانی میں چوبیس گھنٹے تعینات ہوتا ہے جو سارا سال نہ صرف ان آلات کی ریڈنگ لیتا ہے اور ڈیٹا واپڈا کو بجھواتا ہے تاکہ ڈیم کی صحت کا ساتھ ساتھ پتا چلتا رہے۔
واپڈا کا ٹیکنیکل اور واچ اینڈ وارڈ کا عملہ ہر وقت ڈیم پر گھوم پھر کر اس کی ظاہری حالت کو بھی دیکھتا رہتا ہے اور کسی بھی نظر آنے والے نقص کو بروقت ٹھیک کرتا رہتا ہے۔
پھر سپر چیک کے لیے واپڈا کے اندر ایک ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن قائم ہے جس کے سپیشلسٹ ہر چار پانچ سال بعد ان ڈیموں کا معائنہ کرتے رہتے ہیں اور کسی بھی نقص کی صورت میں فوری سفارشات مرتب کرتے ہیں تاکہ ڈیم محفوظ طریقے سے کام کرتے رہیں۔
اس وقت واپڈا کے حکام کو میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا پر چلنے والی ان افواہوں کا اپنے ڈیٹا کی روشنی میں ایک تسلی بخش جواب دینا چاہیے تاکہ خوف و ہر اس ختم ہو۔
کراچی کے لیے پانی کیا اہمیت
اچھی خبر یہ ہے کہ کراچی کے لیے پانی ذخیرہ کرنے والا ’’حب ڈیم‘‘ مکمل طور بھر گیا ہے اور اس کا اسپل وے 13 سال بعد الحمدللّٰہ ایک مرتبہ پھر چلا ہے۔
یہ ذخیرہ تین سال کے لیے کراچی کی پانی کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ تاہم اسپل وے سے پھسلتا ہوا پانی سیدھا سمندر میں بھیجنے کے بجائے نیچے حب دریا میں یا آف لائن ذخیرہ کرنے یا زمینی پانی ری چارج کرنے پر سوچنا ہوگا۔
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اتنی دیر بعد چلنے والے اسپل وے سے اسپل اوور ہوتے پانی کے لیے نیچے انفراسٹرکچر بنانا مناسب نہیں۔ تاہم میرا خیال ہے کہ جہاں پانی کم ہو وہیں تو اس طرح کی حرکتوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ پانی تین سال سے زائد بھی کچھ وقت نکال لے۔
مجھے پنجاب کے مختلف شہروں کی کالونیوں میں صبح کے وقت دیر تک اوور فلو ہوتی پانی کی ٹینکیاں یاد آرہی ہیں جنھیں ہم لوگ موٹر آن کر چھوڑ دیتے ہیں اور خواب خرگوش کے مزے لیتے رہتے ہیں جب کہ پانی اوور فلو ہو کر گلی میں جا رہا ہوتا ہے۔
کراچی اور دیگر شہروں میں حالیہ بارشوں میں پانی کی نکاسی نہ ہونے سے شہریوں کے لیے کافی مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ حالاں کہ شہر کراچی میں استعمال کے پانی کی کافی کمی ہے لیکن دوسری طرف بارش کا کروڑوں لیٹر صاف پانی مفت میں ضائع ہوجاتا ہے۔
گو اتنے بڑے پیمانے پر صاف پانی کو ذخیرہ کرنے کا بندوبست صرف حکومتی ادارے ہی کر سکتے ہیں لیکن عوام کو بھی اپنے دائرے سے کچھ بڑھ کر ضرور کرنا چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ایک دو ڈرم پانی جمع کرنے سے کیا ہوگا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہم پانی کی ایک شدید کمی کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں آج کے یہ چھوٹے چھوٹے پانی بچت آئیڈیازبڑے اہم نظر آئیں گے۔ دو دو ڈرم مل کر بھی کروڑوں گیلن پانی بن جائے گا۔
ہر چیز سپلائی اور ڈیمانڈ کے اُصول پر کام کرتی ہے۔ سولر سیل کسی زمانے میں بہت مہنگا اور ناقابل عمل لگتا تھا آج شمسی توانائی کا دور دورا ہے اور ایک چرواہا تک چولستان میں سولر پلیٹ لے کر پھر رہا ہوتا ہے کیونکہ سپلائی وافر ہے اور سپیئر پارٹس ہر جگہ مل جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر بجلی ہر کسی کی ضرورت ہے۔ وہی سپلائی اور ڈیمانڈ کا اُصول۔ اسی طرح بارشی پانی کی بچت بھی مستقبل میں ایک قابل عمل سودمند عمل بن جائے گی اور کئی قابل عمل آسان طریقے سامنے آجائیں گے اگر ہم اس بارے سوچتے رہے۔
یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں بارش کا دورانیہ کم ہے اور گھروں میں بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کے سٹوریج ٹینک بنانا اور دیگر انتظام کرنا مہنگا سودا لگتا ہے لیکن میری دیانت دارانہ رائے ہے کہ اگر ہم لوگ بارش کے پانی کو ایک موقعہ سمجھ کر بہتر پلاننگ اور واٹر مینجمنٹ کریں تو 1 یا 1.5 ملین روپے لاگت والے منصوبے بھی عام گھرانوں کے لیے انتہائی سودمند نظر آئیں گے۔
رین واٹر ہارویسٹنگ ہی اب ہمارے سارے میٹروپولیٹن شہروں کی اُمید اور بقا ہے۔بارش کے دنوں میں اتنے زیادہ پانی کی سٹوریج سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس کے لیے ہمیں روایتی طریقوں کے بجائے کچھ نئے آئیڈیاز سوچنے ہوں گے کیوں کہ پانی ہوا کے بعد دوسری اہم ترین چیز ہے جس پر ہر جان دار کی زندگی کا دارومدار ہے۔
مستقبل میں ٹینکر مافیا کے بجائے ڈرون سے پانی کی ہوم ڈلیوری زیادہ دُور نہیں لگتی جس پر مستقبل کے پاکستانی شہروں میں کیبل آپریٹرز کی طرز پر ڈرون آپریٹرز کا نیٹ ورک معرض وجود میں آجائے گا۔ اسی طرح اے ٹی ایم کارڈ کی طرز پر ہر شخص کا ڈیجیٹل واٹر کارڈ ہو گا جس میں واٹر بیلنس موجود ہونے پر اسکریچ کرنے سے ہی کوئی بھی ٹوٹی چلے گی چاہے وہ گھر کہ ہو، لاری اڈے کی ہو یا کسی سڑک کنارےکی۔
بلوچستان کے سیلاب کی صورت حال اور اس کا انتظام
جہاں بلوچستان میں حالیہ بارشوں سے ہونے والے جانی اور مالی نقصان پر دل رنجیدہ تھا وہیں عید کے دنوں میں بلوچستان کے ویرانوں میں لائف جیکٹس پہنے بپھرے ندی نالوں کے سیلابی پانیوں کی طوفانی لہروں سے کھیلتے فلڈ ایمرجنسی ریسپانس میں مصروف کرم کیےگئے لوگ دل میں گھر کر گئے۔
اس سارے معاملے کے کچھ تکنیکی اور انتظامی پہلووں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ غلطیوں سے سبق سیکھا جا سکے۔
غیر معمولی مون سون بارشیں
بلوچستان میں اس دفعہ ہونے والی مون سون بارشیں معمول سے ہٹ کر تھیں۔ یہ صوبے میں اب تک ہونے والی شدید ترین بارشیں تھیں۔ ان بارشوں کے دو سپل تھے: ایک عید سے پہلے 6سے 10 جولائی تک اور دوسرا سپل عید کے بعد 13 سے 15 جولائی تک۔
پہلے دورانیہ نے شمالی بلوچستان خصوصا قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، ژوب، ہرنائی، زیارت، پشین اور کوئٹہ کو زیادہ متاثر کیا۔ یہ اس علاقے میں فروٹ کا سیزن بھی ہوتا ہے جس پر لوگوں کی سارے سال کی روزی روٹی کا دارومدار ہوتا ہے۔ خصوصا خوبانی، آڑو، آلو بخارہ، چیری اور سیب کے پھل بہت متاثر ہوئے۔
دوسرے دورانیہ میں شمال بلوچستان کے ساتھ ساتھ جنوبی بلوچستان کو بھی بے حد متاثر کیا۔خضدار، کیچ ، مکران اور لسبیلہ کے علاقے زیادہ متاثر ہوئے۔ جنوبی بلوچستان کی اہم فصل کھجور کی ہے جو کہ تقریباً برباد ہوکر رہ گئی۔
بلوچستان کے پی ڈی ایم اے یا صوبائی محکمہ برائے انتظام آفات کے مطابق 77 لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ صوبے کے 24 مختلف علاقوں میں 730 مکانات، 416 مویشی، 587 سولر پینل، 5پل، 57 الیکٹرک پول ، 8 سمال ڈیم اور بہت سی سڑکوں کو نقصان پہنچا۔
افواہیں ، مشکلات اور ریسپانس
سوشل میڈیا پر ٹوٹنے والے چھوٹے ڈیموں کو بلوچستان میں حالیہ بارش کے بعد آنے والے سیلاب کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ فورا ہی کرپشن اور ناقص میٹریل کے استعمال کو ڈیم ٹوٹنے کی وجہ قرار دے دیا گیا اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کی سفارشات مرتب کی گئیں۔ آنے والی خبروں میں متاثرہ ڈیموں کی تعداد پر کم و بیش ہوتی رہی اور اکثر اوقات ان کی اصل جگہ بھی نہیں بتائی جا رہی تھی۔
متاثر ہونے والے ڈیموں کے بارے میں فوری طور پر واضح معلومات نہیں مل رہی تھیں کیونکہ بہت سی جگہوں پر موبائل سگنل غائب تھے اور ندی نالوں میں طغیانی آنے سے زمینی راستے بھی کٹ چکے تھے۔ زیادہ تر متعلقہ لوگ فلڈ ایمرجنسی ریسپانس میں مصروف تھے جس میں متعلقہ فیلڈ سٹاف کی اپنی ڈیم سائٹ پر موجود رہ کر طوفانی بارشوں سے لمحہ بہ لمحہ بدلنے والی صورت حال پر نظر رکھنا اور کسی مسئلے یا ایمرجنسی کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ مشینری یا ورک فورس کا انتظام کرنا وغیرہ شامل تھا۔ ساتھ ہی مختلف متعلقہ حکومتی محکموں جیسے PDMA اور سیکرٹری آفس کے ساتھ رابطہ میں رہنا اور اُنھیں مسلسل زمینی حالات پر اَپ ڈیٹ کرنا شامل تھا۔
بارش کا پہلا دورانیہ جب 6 جولائی سے شروع ہوا تو پہلے دن تو بلوچستان کے پانی کے معاملات سے متعلقہ تمام لوگ خوش تھے کہ الحمدللّٰہ اچھی بارشوں سے تمام ڈیم بھر جائیں گے۔ تاہم دوسرے دن 7 جولائی کی صبح سے کچھ تشویش شروع ہوئی کیونکہ ایسی بارشیں پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھیں۔ یہ عید سے پہلے آخری دن تھا جب تمام فیلڈ سٹاف گھروں کو جانے کے لیے تیار تھا۔ جو لوگ تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہیں اُنھیں پتا ہوگا کہ فیلڈ سٹاف اور لیبر کچھ بھی ہوجائے عیدین پر ہفتے دس دن کی پکی چھٹی کرتے ہیں اور اس دوران سایٹ بالکل بند ہوتی ہے۔ لیکن اس دفعہ بہت سے لوگوں نے عید کے دن بھی بے سروسامانی کی حالت میں سائٹوں پر رہ کر مانیٹرنگ کرتے اور ایمرجنسی فلڈ ورکس کرواتے گزارے۔ بارش تھی کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور یہ لوگ بھی جم کر بیٹھے رہے اور اپنا کام کیا۔
کتنے ڈیم متاثر ہوئے؟
پاکستان کے قومی رجسٹر برائے ڈیم کے مطابق پاکستان میں 2018ء تک تعمیر ہوچکے ڈیموں کی کل تعداد 467 ہے جس میں سے بلوچستان نے 332 ڈیم ہیں جب کہ باقی سارے صوبوں نے کل ملا کر 135 ڈیم ہیں۔گزشتہ چار سالوں میں بلوچستان میں درجنوں مزیذ ڈیم بھی تعمیر ہوچکے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں برساتی نالوں پر کئی اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں مقامی طورپر بندات تعمیر کیے گئے ہیں جو مٹی کا کٹاؤ روکنے اور بارش کا پانی جمع کرنے کے کام آتے ہیں۔
حالیہ سیلابی بارشوں میں بلوچستان کے 332 چھوٹے بڑے ڈیموں میں سے 8 چھوٹے ڈیم متاثر ہوئے جب کہ بقیہ کے 324 چھوٹے بڑے ڈیم الحمدللّٰہ محفوظ ہیں۔جن میں ذخیرہ شدہ پانی آنے والے دنوں میں انشااللہ استعمال ہوگا۔ یہ پانی اس سیلاب میں ریلوں میں ڈھلنے سے بھی بچ گیا۔ سو ڈیم پراجیکٹ کی اگر بات کریں تو الحمدللّٰہ اس کے بن جانے والے 60 ڈیم اس سیلاب میں محفوظ رہے تاہم ایک زیر تکمیل ڈیم کو گہرائی میں موجود پرانی بند کاریزوں کے چل پڑنے سے نقصان ہوا۔ دوتین اور ڈیمز پر معمول کے سیلاب کے نقصانات ہوئے جن کی مرمت کر دی گئی ہے۔
تاہم جہاں مقامی بند سلسلہ وار ٹوٹے وہاں نقصان بڑھ گیا کیونکہ اوپر والا بند جب ٹوٹا تو اس کے پانی کا زور بھی نیچے والے بند پر آگیا اور یوں اس کے نیچے یہ سلسلے چلتا رہا اور پانی کا زور بڑھتا گیا۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ قلعہ عبداللہ چمن متاثر ہوا۔تاہم قلعہ سیف اللہ ، پشین اور لورالائی کے علاقوں میں بھی نقصانات ہوئے۔سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر حکومت بلوچستان نے انکوائری کروانے کا اعلان کیا ہے اور محکمانہ تفتیش کے بھی تمام فورم حرکت میں آچکے ہیں۔
ڈیزائن فلڈ سے بڑا سیلاب آ جانا
جس طرح ایک منزلہ گھر کے لیے بنیاد تیار کرکے اگر اُس کے اوپر تین چار منزلوں کا بوجھ ڈال دیا جائے تو نیچے والی منزل گر جائے گی اسی طرح پانی کے ایک خاص حجم کو سنبھالنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ڈیم تین یا چار گنا زیادہ پانی کاحجم آنے پر سنبھال نہیں پائے گا۔
چھوٹے ڈیموں کا اسپل وے کا سائز بھی ایک خاص حد تک کے سیلاب کو نکالنے کے لیے ڈیزائن ہوتا ہے اور اگر پیچھے سے پہاڑی علاقوں میں اس سے زیادہ پانی آجائے تو ڈیم میں پانی سطح بلند ہونا شروع ہوجاتی ہے۔جب پانی کافی دیر تک زیادہ آتا رہے تو ڈیم کی جھیل کی سطح بلند ہوکر ڈیم کے اوپر سے اوور فلو ہوکر اُس ڈیم کو توڑے ہوئے اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ چھوٹے ڈیموں کو نقصان پہنچنے کی ایک اہم وجہ تاریخ ساز بارشوں سے پیدا ہونے والے پانی کے غیر معمولی بڑے ریلے ہیں جو انتہائی تیزی سے معمول کے ڈیزائن فلڈ سے کئی گنا زیادہ پانی ساتھ لائے۔
چھوٹے ڈیموں کے لیے انٹرنیشنل کوڈ کے مطابق ایک حد تک ہی بڑے اسٹرکچر ڈیزائن کیے جاتے ہیں کیونکہ چھوٹے ڈیموں کے فوائد اور اُن کی عمر کم ہوتی ہے اور اُن کا رسک بھی کم ہو ہوتا ہے۔ تاہم کوئی بھی ڈیم ٹوٹنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا جاتا بلکہ استعمال ہونے کے لیے بنتا ہے۔ اسی اُصول اور کوڈ پر ڈیزائن کیے گئے بلوچستان کے باقی 324 چھوٹے بڑے ڈیم اس غیر معمولی بڑے سیلاب کو بھی سہہ گئے۔
ڈیموں سے متعلقہ کسی باقاعدہ تکنیکی ادارے کا نہ ہونا
بلوچستان کی دیہی آبادی کی روزی روٹی کاانحصار مویشی پالنے پر ہے لیکن شروع سے ہی بلوچستان کو دوسرے میدانی ، نہری اور زرعی صوبوں کی طرح چلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پنجاب اور سندھ کی طرح یہاں بھی محکمہ آب پاشی قائم کیا گیا حالاں کہ بلوچستان میں باقاعدہ نہری نظام پٹ فیڈر کینال اور لسبیلہ کینال کے علاوہ کہیں بھی نہیں ہے۔بقیہ سارے علاقے بارانی ہیں جہاں سیلابی اور بارشی پانی کو زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 1991ء کے قومی آبی معاہدے کے مطابق بھی بلوچستان کی نہروں کے لیے دریائی پانی کا حصہ صرف 3 فی صد ہے۔
بلوچستان کے سالانہ پانی کا ستر فیصد سے زیادہ بارشوں سے آتا ہے جو کہ اکثر علاقوں میں سردیوں یا مون سون کے چند دنوں میں ہو جاتی ہیں اور پہاڑی ندی نالوں کے ذریعے پانی تیزی سے نکل جاتا ہے۔ بلوچستان کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں کہ اُس کم وقت میں میسر پانی کے بڑے حجم کو زیادہ سے زیادہ ذخیرے بنا کرباقی دنوں کے استعمال کے لیے محفوظ کرے۔
پنجاب جیسے میدانی صوبے میں بھی نیم پہاڑی علاقے پوٹوہار کے لیے ’’سمال ڈیم آرگنائزیشن‘‘ یا ادارہ برائے انتظام چھوٹے ڈیم آج سے پچاس سال پہلے 1970ء میں قائم کردیا گیا تھا جس کے تحت اس علاقے میں اب تک 57 چھوٹے ڈیم مکمل ہو چکے ہیں اور 13 ڈیم زیر تعمیر ہیں۔ صوبہ سندھ میں سمال ڈیم آرگنائزیشن 2007ء میں بنا دی گئی۔کے پی میں سمال ڈیم کے لیے پورا ایک ڈائریکٹریٹ قائم ہے اور تو اور سابقہ فاٹا کے چھوٹے سے علاقے کے لیے بھی فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اندر سمال ڈیم سیکشن موجود تھا۔
سرزمین بلوچستان جس کا تو صرف پہاڑی علاقہ ہی باقی تمام صوبوں کے کل علاقے سے زیادہ ہے اور پاکستان کے آدھے سے زیادہ پہاڑ وہاں ہیں لیکن بلوچستان میں ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ حالاںکہ بلوچستان کے تناظر میں تو سمال ڈیم آرگنائزیشن کے بجائے شروع سے ہی ایک بڑا ’’صوبائی محکمہ برائے ڈیم اور آب پاشی‘‘ بطور خاص قائم ہونا چاہیے تھا۔ مزید یہ کہ اس محکمہ کے اندر ایک ’’رین واٹر ہارویسٹنگ آرگنائزیشن‘‘ علیحدہ سے بنائی جاتی۔ بلوچستان کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں ڈیم انجینئرنگ ، رین واٹر ہارویسٹنگ اور واٹر مینجمنٹ کے ترجیحی کورسز ہوتے
بلوچستان میں 2008 میں پہلی دفعہ 100 ڈیم کا پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (PMU) قائم کیا گیا جس کے ذمہ اگلے 20 سال میں بلوچستان کے طول وعرض میں 100 ڈیم تعمیر کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے بارہ سال کے قلیل عرصے میں 60 سمال ڈیم مکمل کر دیے گئے۔ اس منصوبے کے رُوح رواں سابقہ پراجیکٹ ڈائریکٹر عمران درانی مرحوم نے PMU کو بلوچستان سمال ڈیم آرگنائزیشن بنانے کے لیے متعدد دفعہ وفاقی سطح آواز اُٹھائی لیکن اُنھیں کامیابی نہ مل سکی۔ چوں کہ اس پی ایم یو کی ذمہ داریاں اور وسائل اپنے منصوبے تک محدود تھے اس لیے اس کے علاوہ باقی بننے والے ڈیموں کے لیے تکنیکی طور پر فائدہ نہ اُٹھایا جاسکا۔
پانی#
سیلاب#
ڈیم#