پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے تیس لاکھ سے زائد بچے خطرات سے دوچار ہوگئے
UNICEF.ORG, یکم ستمبر 2022
اسلام آباد، یکم ستمبر 2022 –یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے تیس لاکھ سے زائد بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے ۔ یونیسف سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں اور ان کے خاندانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
پاکستان میں اس سال مون سون میں شدید بارشوں ، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ، جن میں تقریباً ایک کروڑ 60لاکھ بچے بھی شامل ہیں ۔ 350 سے زائد بچوں سمیت 1,100 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، 1,600 زخمی ہوئے، اور 287,000 سے زیادہ گھر مکمل طور پر اور 662,000 جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ کچھ بڑے دریاؤں نے اپنے بند توڑ دیے ہیں اور ڈیم گنجائش سے زیادہ بھر چکے ہیں، جس سے گھروں، کھیتوں ، سڑکوں، پلوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور صحت عامہ کی سہولیات سمیت اہم بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
پاکستان میں یونیسف کے نمائندے، عبداللہ فاضل کا کہنا تھا، ’’آفات میں بچے ہمیشہ سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہوتے ہیں۔اس سیلاب نے پہلے ہی بچوں اور ان کے خاندانوں کو تباہ کن نقصان پہنچایا ہے، اور صورت حال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔ یونیسف حکومت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ متاثرہ بچوں کو جلد از جلد ضروری امداد مل سکے۔‘‘
ایک تخمینے کے مطابق ، متاثرہ علاقوں میں 30 فیصد آبی نظام کو نقصان پہنچاہے، جس سے لوگوں کے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے اور غیر محفوظ پانی پینے کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
اسی طرح تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو کافی نقصان پہنچا ہے ، اطلاعات ہیں کہ 17,566 اسکولوں کی عمارتیں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں، جس سے بچوں کی تعلیم کو مزید خطرہ لاحق ہواہے۔ گزشتہ سالوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے دو برس تک اسکولوں کی بندش کے بعد ایک بار پھر بچوں کی پڑھائی میں خلل پڑنے کا خطرہ ہے، اور وہ بھی ان علاقوں میں جہاں ایک تہائی لڑکیاں اور لڑکے موجودہ بحران سے پہلے ہی اسکولوں سے باہر تھے۔
حکومت پاکستان نے 30 سالہ قومی اوسط سے تقریباً تین گنا، اور کچھ صوبوں میں پانچ گنا زیادہ بارشوں کی وجہ سے قومی ایمرجنسی کا اعلان کردیا ہے اور 72 اضلاع کو ’آفت زدہ‘ قراردے دیا ہے، جن میں سے بیشتر شدید ترین متاثرہ صوبوں، بلوچستان اور سندھ میں ہیں جبکہ خیبرپختونخوا اور پنجاب بھی متاثر ہوئے ہیں۔
ان علاقوں سے ،خطرے سے دوچار آبادیوں کو متاثر کرنے والی بیماریوں، اسہال اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، سانس کے انفیکشن اور جلد کی بیماریوں کے کیسز پہلے ہی رپورٹ ہو چکے ہیں۔متاثرہ علاقوں میں سیلاب سے پہلے ہی 40 فیصد بچے سٹنٹنگ کا شکار تھے، جو کہ مسلسل غذائی قلت کی وجہ سے پیدا ہونے والی طبی کیفیت ہے۔ یہ خطرناک انسانی بحران آئندہ دنوں اور ہفتوں میں مزید خراب ہونے کی توقع ہے کیونکہ پہلے ہی زیر آب علاقوں میں مزید تیز بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس ہفتے اقوام متحدہ کی جانب سے فلیش اپیل کی گئی ہے جس کا مقصد حکومت پاکستان کی جانب سے سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کی کوششوں کو تقویت پہنچانا ہے۔ اس اقدام کے تحت، یونیسف نے 3کروڑ70لاکھ امریکی ڈالر کی امداد کی اپیل کی ہے اور آنے والے مہینوں میں بچوں اور ان کے خاندانوں تک فوری امداد پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے،جس میں جان بچانے والے طبی آلات، ضروری ادویات، ویکسین اور بچوں کی پیدائش محفوظ طریقے سے کرنے کے لیے ضروری سامان کے علاوہ پینے کا صاف پانی اور صفائی ستھرائی ، خوراک ، عارضی تعلیمی مراکز اور تعلیمی موادو آلات شامل ہیں۔
یونیسف کے چلڈرن کلائمیٹ رسک انڈیکس (سی سی آر آئی) کے مطابق، پاکستان ایک مشہور ’ماحولیاتی ہاٹ سپاٹ‘، اور ایسا ملک ہے جہاں بچوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے شدید خطرات سے دوچار سمجھا جاتا ہے، اور سی سی آر آئی کی درجہ بندی والے 163 ممالک میں سے 14 ویں نمبر پر ہونے کی وجہ سے پاکستان کی درجہ بندی ’انتہائی زیادہ خطرے سے دوچار ‘ کے زمرے میں ہے۔ ’انتہائی زیادہ خطرے‘ سے دوچار ممالک میں بچوں کو ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق مہلک خطرات کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی ، صفائی ستھرائی، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کی کمیابی جیسے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔