پاکستان میں پانی تو بہت ہے، پھر قلت کیوں
پاکستان میں پانی تو بہت ہے، پھر قلت کیوں
پاکستان میں پانی تو بہت ہے، پھر قلت کیوں؟
رضا ہمدانی
پاکستان میں پانی کی دستیاب مقدار ڈھائی سو ارب کیوبک میٹرز ہے جس میں سے نوے فیصد زراعت، چار فیصد صنعت اور باقی چھ فیصد گھریلو استعمال کے لیے ہے۔
پاکستان میں پانی کی قلت ایک بڑا خطرہ ہے جس کے شواہد موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کتنا بڑا خطرہ ہے؟ یہ کتنی تیزپپپپ پ رفتاری سے بڑھ رہا ہے؟ اور ہمیں اس سے نمٹنے یا اس سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات جتنی جلدی ہو سکے معلوم کر لیے جائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں پانی کی دستیاب مقدار ڈھائی سو ارب کیوبک میٹرز ہے، جس میں سے نوے فیصد زراعت، چار فیصد صنعت اور باقی چھ فیصد گھریلو استعمال کے لیے ہے۔ یعنی ڈھائی سو میں سے صرف 15 ارب کیوبک میٹر پانی گھریلو استعمال کے لیے دستیاب ہے۔ اگر ہم صرف گھریلو استعمال کے پانی کی بات کریں تو 22 کروڑ عوام میں سے 70 فیصد افراد کو صاف پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق دنیا بھر کے ممالک جن کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اس فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی یو این ڈی پی اور پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر صورت حال ایسی ہی رہی اور اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ملک ہو جائے گا۔
یہ اعداد و شمار اور تحقیق پہلی بار نہیں کی گئی بلکہ بارہا اس بات کو اجاگر کیا جا چکا ہے۔ 2016 میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان 1990 میں واٹر سٹریس لائن تک پہنچ گیا تھا اور 2005 میں پانی کی قلت کی لائن عبور کرلی تھی۔
سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1017 کیوبک میٹر ہے جبکہ 2009 میں یہ دستیابی 1500 کیوبک میٹر تھی۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دستیابی 500 کیوبک میٹر تک پہنچ گئی تو ملک 2025 تک مطلق پانی کی قلت کا سامنا کرے گا۔پاکستان میں پانی کی قلت کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق آبادی میں تیزی سے اضافہ، پانی کو ذخیرہ کرنے کی کمی اور زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال ان میں شامل ہیں۔ پاکستان میں تین بڑے ڈیموں میں اوسط نو فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ اوسط 40 فیصد ہے۔
اگر اب بھی ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت مستقبل قریب کا مسئلہ نہیں ہے تو ہمیں بطور قوم ایک بار پھر سوچنا پڑے گا۔ پانی کی قلت ایک ٹائم بم ہے اور خدا ناخواستہ جس دن یہ پھٹا تو 22 کروڑ عوام کو پانی کی قلت کا سامنا ہو گا۔
وجہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس پانی نہیں ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ہم پانی کے وسائل کو اہمیت نہیں دے رہے اور اس حوالے سے اقدامات نہیں اٹھا رہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی بڑی مقدار میں موجود ہے اور دنیا میں صرف 35 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس پاکستان سے زیادہ پانی کے وسائل ہیں، لیکن پانی کے وسائل کو مینیج نہیں کیا جا رہا اور بڑھتی آبادی موجودہ وسائل پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔
ایک طرف پانی کے وسائل کو ہم صحیح طور پر مینیج نہیں کر رہے تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی ناقابل تغیر بارشوں، قحط اور سیلاب کی صورت میں ہمارے موجودہ نظام پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔
پاکستان کا شمار ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو موسمی تبدیلی سے شدید متاثر ہیں۔ پورتو ریکو، میانمار، ہیٹی، فلپائن کے بعد پاکستان کا نام ہے۔ ایکشن ایڈ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کے باوجود سمندری سطح میں اضافے، پانی کی قلت، زراعتی پیداوار میں کمی اور خشک سالی کے باعث خدشہ ہے کہ 2030 تک پاکستان میں چھ لاکھ افراد بے گھر ہو جائیں گے اور نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔ تاہم اگر موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دگنی یعنی 12 لاکھ ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے حال ہی میں دنیا کو خبردار کیا ہے کہ موسمی حدت خطرناک حد تک قابو سے باہر ہونے کے قریب ہے اور اس کے ذمہ دار انسان خود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی میں اضافہ ہی ہوگا، کمی واقع نہیں ہوگی یعنی کہ شدید گرمی کی لہر، سیلاب اور دیگر شدید موسمی واقعات جو اس وقت مختلف ممالک میں واقع ہو رہے ہیں، ان میں مزید شدت آئے گی۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں برداشت سے زیادہ گرمی پڑی اور درجہ حرارت 52 ڈگری سیلسیئس سے بڑھ گیا۔ ماہرین نے تو یہ بھی کہا کہ اگر اتنی گرمی کچھ گھنٹے مزید برقرار رہی تو لوگوں کے اعضا جواب دے سکتے ہیں اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق جیکب آباد میں اتنی زیادہ گرمی ان کی توقعات سے کہیں پہلے ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے ساتھ پاکستان کے علاقے موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہوں گے اور مستقبل قریب میں درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہو گا۔
پانی کی قلت اب بھی حکومت کے ریڈار پر نہیں آئی ہے۔ اس حوالے سے کسی قسم کی مربوط پالیسی یا بیانیہ سامنے نہیں آیا ہے۔ وقت نکلتا جا رہا ہے۔ ملک کے 22 کروڑ عوام 2025 تک شاید 25 کروڑ ہوچکی ہوگی۔ 2025 وہ سال ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان مطلق پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ مطلق پانی کی قلت سے صرف پاکستان کے ریگستانی علاقوں میں رہنے والے ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ وہ آبادی بھی متاثر ہوگی، جو ملک کے شمالی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پانچ ہزار سے زائد گلیشیئرز ہیں۔
دی انڈیپنڈنت